عرب قوم جس کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت
ہوئی، پلے، بڑھے اور جوان ہوئے، یقینا وہ ایک خونخوار اور
جنگ جُو قوم تھی، تہذیب و تمدن سے نابلد، برائیوں کی
خوگر، معرفت الٰہی سے کوسوں دور اور طبیعت کے اعتبار سے انتہائی
سخت، اُجڈ اور گنوار تھی، تمام قبائل ایک خدا کو چھوڑ کر سیکڑوں
دیوی، دیوتاؤں کو سجدہ کرتے تھے، خوبصورت پتھر اور مورتی
کو اپنا معبود تصور کرتے اور اگراس سے بہتر کوئی پتھر نظر آتا تو اسے چھوڑ
کر دوسرے کے گرویدہ ہوجاتے، غرض معبود اور خدا کا عقیدہ ایک
مذاق بن چکا تھا، چوری، زناکاری، شراب نوشی، قتل و غارت گری
ایک عام بات تھی، جانوں کی قیمت ان کے نزدیک درخت
کے اس پتہ سے زیادہ نہیں تھی جسے لوگ چلتے چلتے توڑ لیتے
ہیں، ایک جنگ کا سلسلہ پشتہا پشت جاری رہتا، نہ وہاں کوئی
مصلح تھا اور نہ ماننے کا مزاج، لڑکیوں کی ولادت سے انہیں شرم
آتی، عورتوں کو ان کے معاشرہ میں جینے کا حق نہیں تھا، گویا
انسان اور جانور کا فرق مٹ چکا تھا، مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے
مسدّس میں اس کو انتہائی حسین اور دلکش پیرایہ میں
اس طرح بیان کیا ہے۔
وہ
دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا خلیل ایک معمار تھا
جس بنا کا
ازل
میں مشیت نے تھا جس کو تاکا کہ
اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا
وہ
تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویا جہاں
نام حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے
قبیلے کا بت اک جدا تھا کسی
کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
یہ
عُزّا پہ وہ نائلے پر فدا تھا اسی
طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں
ابر ظلمت میں تھا مہر انور اندھیرا
تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن
ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ ہر
اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں
میں کٹتا تھا ان کا زمانہ نہ
تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ
تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے درندے
ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ
ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے سلجھتے
نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو
دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے تو
صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
بلند
ایک ہوتا تھا گر واں شرارا تو اس سے بھڑک اٹھتا
تھا ملک سارا
کہیں
تھا مویشی چرانے پر جھگڑا کہیں
پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ
جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا کہیں
پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یوں
ہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں یوں ہی چلتی رہتی تھی
تلوار ان میں
جو
ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر تو خوفِ شماتت سے بے
رحم مادر
پھرے
دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور کہیں
زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ
گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی جنے سانپ جیسے کوئی
جننے والی
(مسدس حالی صفحہ ۲۵ تا
۲۷ مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ، دیوبند)
اولاد سے محبت کسے نہیں ہوتی
مگر آہ ․․․․! بے رحمی اور سنگ دلی کی
حد ہوگئی، اگر ماں کی ممتا اور شفقت کی وجہ سے یا کسی
اور سبب بچپن میں لڑکیوں کو زندہ زیر زمین دفن نہ کرسکتے
تو جب بھی موقع ہاتھ آتا انہیں اس میں کوئی عار محسوس نہ
ہوتا، بولتی، ہنستی، مسکراتی اور کھیلتی ہوئی
معصوم بچیوں کو کسی بہانے کنویں کے قریب لے جاتے اور
انتہائی بے دردی سے انہیں منھ کے بل اس میں دھکیل دیتے،
کچھ ہی دیر میں یہ کلیاں مرجھا جاتیں، ایک
شخص نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نسل کشی
اور لڑکیوں کو زندہ مار ڈالنے کا واقعہ بیان کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی
دردناک آپ بیتی سن کر روپڑے،اس نے بیان کیا کہ
”میری ایک لڑکی
تھی، جب میں اس کو بلاتا تو دوڑ کر میرے پاس آتی، ایک
دن وہ میرے بلانے پر خوش خوش دوڑی آئی، میں آگے بڑھا اور
وہ میرے پیچھے پیچھے چلی آئی، میں آگے بڑھتا
چلا گیا، جب ایک کنویں کے پاس پہنچا جو میرے گھر سے کچھ
دور نہ تھا اور لڑکی اسکے قریب پہنچی، تو میں نے اسکا
ہاتھ پکڑ کر کنویں میں ڈال دیا، وہ ابّا ابّا کہہ کر پکارتی
رہی اور یہی اسکی زندگی کی آخری آواز
تھی، رحمت کونین صلی
اللہ علیہ وسلم اس پُردرد افسانہ کو سن کر آنسو ضبط نہ کرسکے، ایک
صحابی نے ان کو ملامت کی کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین
کردیا، فرمایا: اس کو چھوڑ دو کہ جب مصیبت اس پر پڑی ہے
وہ اس کا علاج پوچھنے آیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
ہاں میاں تم اپنا قصہ پھر سناؤ، اس نے دوبارہ پھر بیان کیا،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
یہ حالت ہوئی کہ روتے روتے ریش مبارک تر ہوگئی، پھر فرمایا:
جاؤ کہ جاہلیت کے گناہ اسلام کے بعد معاف ہوگئے اب نئے سرے سے اپنا عمل شروع
کرو۔“ (سیرة النبی جلد ۶ صفحہ ۲۳۶)
قرآن نے اہل عرب کی اس حالت کا نقشہ
اس طرح کھینچا ہے ”وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُم
بالْاُنْثٰی ظَلَّ وجہُہ مُسْوَدًّا وَہُوَ کظِیْم یَتَوارٰی
مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہ اَیُمْسِکُہُ عَلٰی
ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہُ فی التُّرَابِ“ (سورہ نحل آیت ۵۹)
”اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری
سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ دل میں
گھٹتا رہتا ہے اس بری خبر پر وہ لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے، آیا اس
مولود کو ذلت اور زحمت کی حالت میں لئے رہے یا اسے مٹی میں
گاڑ دے“ یہ سوال مشرک باپ کے ذہن میں گردش کرتا، اس کے دو محرک تھے ایک
تو ذلت و رسوائی، اس لئے کہ عرب معاشرہ میں لڑکیوں کا وجود باعث
عار تھا اور دسرا فقر و فاقہ اور افلاس کا خوف، کہا جاتا ہے کہ بنوتمیم میں
اس کا رواج زیادہ تھا تاہم عالم عرب کے تمام اقوام و قبائل اس کے شکار تھے،
ایسی سخت، سنگدل اور جاہل قوم کیلئے وحدانیت اور معرفت
الٰہی کا پیغام قبول کرنا آسان نہ تھا، مگر قربان جائیے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
پر جنھوں نے اپنی محنت، جدوجہد، بے چین قلب، حکمت بالغہ، شیریں
زبانی اور اخلاق کریمانہ کے ذریعہ توحید کا پرچم مکہ کی
سنگلاخ زمین میں لہرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے
۲۳/سال کے مختصر عرصہ میں عالم عرب کے بیشتر ممالک میں
اسلام کے ترانے گائے جانے لگے، نفرتیں محبت میں تبدیل ہوگئیں،
بت گر بت شکن ہوگئے، شراب گلیوں میں بہنے لگی، جھوٹ، غیبت،
حسد اور جلن کا چلن ختم ہوگیا، زنا کاری کے تصور سے دل کانپنے لگا،
عورت اب پھول کی طرح ہرگھر کی چہیتی بن گئی، اُجڈ
قوم مہذب بن گئی، خوف خدا اور آخرت کے ڈرنے انہیں لاغر بنادیا،
جہنم کے ڈراؤنے منظر اور عذاب قبر کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اوراتنا روتے تھے
کہ ہچکیاں بندھ جاتیں، جنت کی تڑپ اور طلب میں سارا مال
خرچ کردینا ان کے لئے ایک معمولی بات تھی، حاصل یہ
کہ سیکڑوں معبودوں کے بجائے اب تمام بندوں کا ایک خدا سے تعلق استوار
ہوچکا تھا، یہ شہنشاہ مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی
صحبت، فیضان نظر اوراعجاز ہی تو تھا کہ شرک و بت پرستی کے عادی
انسان خدا کا شیدائی بن گیا، مولانا الطاف حسین حالی
نے اس سحر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے کہا۔
وہ
بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی عرب
کی زمین جس نے ساری ہلادی
نئی
اک لگن دل میں سب کے لگادی اک
آواز میں سوتی بستی جگادی
پڑا
ہرطرف غل یہ پیغام حق سے کہ
گونج اٹھے دشت وجبل نام حق سے
سبق
پھر شریعت کا ان کو پڑھایا حقیقت
کا گُر ان کو ایک ایک بتایا
زمانے
کے بگڑے ہوؤں کو بنایا بہت
دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے
تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر وہ
دکھلادئیے ایک پردہ اٹھاکر
(مسدس حالی صفحہ ۳۱)
وہ لوگ جو کسی حیثیت کے
مالک نہ تھے، گمراہ اور بدچلن تھے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر
کرم نے ان کو نہ صرف ہدایت کا راستہ دیا بلکہ ساری کائنات کے
لئے شمع ہدایت کا تمغہ عطا کیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم
اہتدیتم (مشکوٰة صفحہ ۵۵۴) یعنی میرے
صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی
پیروی کروگے ہدایت پاؤگے۔ صحابہٴ کرام کا امتحان
خدانے لیا، ان کے ایمان، تقویٰ، عدالت و صداقت کو جانچا
اور پرکھا، وہ اتنے کھرے نکلے کہ قرآن نے ہمیشہ کے لئے ان سے اللہ کی
رضامندی کا اعلان کردیا، انہیں معیار حق بنایا بلکہ
انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل اور بہترانسان قرار دیا، ارشاد باری
ہے اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ
امْتَحَنَ اللّٰہُ قلُوبَہُمْ للتقوٰی لہم مغفرة واَجْرٌ عَظِیمٌ (سورہ حجرات آیت ۳) ”یہی
وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا
ہے، ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے“ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تنبیہ
کی کہ کوئی میرے بعد میرے صحابہ کو طعن و تشنیع کا
نشانہ نہ بنائے، ان سے محبت کرو اس لئے کہ ان سے محبت مجھ سے محبت کرنا ہے اور ان
سے بغض، حسد اور دشمنی گویا میری ذات سے دشمنی ہے
(ترمذی) بلا شبہ قرآن وحدیث، سنت رسول اور پوری شریعت ان
کے توسط سے ملی ہیں، اگر ان کی عدالت و امانت پر کوئی حرف
آجائے تو پورا ذخیرئہ اسلام مشکوک ہوجائے گا، یہ خدا کا انتخاب تھا کہ
آخری شریعت کی اشاعت اور اقصائے عالم میں پھیلانے
کے لئے اپنے رسول کو ایسے شاگرد عطا کئے جو پہلے گنوار تھے مہذب بن
گئے۔ مشرک تھے موحد ہوگئے، سخت تھے نرم ہوگئے، ذلیل تھے دنیا کے
امام بن گئے، حضرت ابوبکر صدیق کو صدیقیت
کا مقام نہ ملتا اگر رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی معیت نصیب نہ ہوتی، حضرت عمر
فاروق کو فاروق، حضرت عثمان غنی کو غنی اور
ذونورین (دو روشنی والے) اور حضرت علی کو شیر خدا
کا خطاب اور اعزاز رسول رحمت صلی
اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور محبت کا اثر ہے، حضرت بلال حبشی اور حضرت سلمان فارسی عرب کے باہر سے تشریف
لائے، کوئی تعارف اور شناشائی نہیں، پہلے غلام تھے لیکن
اللہ اوراس کے رسول کی محبت نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ تمام
مسلمان کے وہ چہیتے اور سردار بن گئے، بقول شاعر
خود
نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا
نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحاکردیا
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد:
90 ،ربیع الثانی1427 ہجری مطابق مئی2006ء